گالی اور غصہ



گالی اور غصہ
گالی اور غصہ








گالیاں کچھ لوگوں کا تکیہ کلام ہوتی ہیں، وہ بات بے بات گالیوں کی بوچھاڑ کرتے جاتے ہیں۔ غصہ آئے تو بھی گالیاں نکالتے ہیں، نہ آئے تو بھی اُن کے منہ سے گالیاں ہی جھڑتی رہتی ہیں۔ ان کرداروں کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو عام طور پر غصہ ہی گالیاں اور مغلظات بکنے کا باعث بنتا ہے۔ جب غصے میں پاگل بنا ہوا شخص اپنے مدمقابل کی ماں، بہنوں پر گندے اور فحش الزام لگا لیتا ہے اور اپنے تئیں اُس کے حسب و نسب کو اچھی طرح مشکوک ثابت کر دیتا ہے تو اس کا کلیجا ٹھنڈا ہوتا ہے۔

صرف اردو زبان کا معاملہ نہیں، دنیا کی ہر زبان میں فصیح اور کٹیلی گالیاں تخلیق کی گئی ہیں۔ ان کا نمایاں وصف معتوب انسان کو بد اصل ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اُس بیچارے کی ماں کو بدکردار بنائے بغیر ایسا نہیں کیا جا سکتا لہٰذا عام طور پر ماں ہی گالیوں کا محور بنی رہتی ہے۔ ماں بہنوں کی برائی کرنے کے علاوہ خود معتوب کو کتا، سؤر اور دوسرے برے القاب سے نوازا جاتا ہے۔

ایک مسلمان کے شایاں نہیں کہ وہ گالی گلوچ کرے۔جو زبان ﷲ کے شکر سے تر رہنی چاہیے، گالی اُس پر نہیں جچتی۔
پھر غصے سے بے قابو ہو جانا جانوروں کا وصف ہے، عقل و شعور رکھنے والا انسان کسی لمحہ عقل کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔
تیسری بات کہ کسی پاک دامن عورت پر گالی کی صورت میں تہمت لگانا سخت گناہ ہے۔

ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک بار انصار مدینہ کی ایک مجلس میں تشریف لے گئے۔ وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا، وہ گندی اور فحش باتیں کرتا ہے اور جلد ہی گالیوں پر اتر آتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا، ’’مومن کو گالی دینا گناہ ہے اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے۔‘‘ اُس شخص نے وعدہ کیا ، بخدا! آئندہ میں گالی نہ نکالوں گا۔ گالیوں میں دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے جو تہمتیں دھری جاتی ہیں اور گندے الزامات لگائے جاتے ہیں اُن کا برا ہونا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے ، ’’کوئی شخص کسی دوسرے پر گناہ گار ہونے کا جھوٹا الزام یا کفر کی تہمت نہیں لگاتا مگر دوسرے میں برائی موجود نہ ہونے کی صورت میں وہ الزام اسی پر چسپاں ہو جاتا ہے۔‘‘

آپ ؐ نے فرمایا، ’’مسلمان کو لعنت ملامت کرنا اسے قتل کرنے کی مانند ہے۔‘‘

ایک تابعی ابو عبدﷲ نے ایک ام المومنین سے رسول پاک صلی ﷲ علیہ و آلہ و سلم کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا

’’ رسول ﷲ ص گفتگو میں حد سے نہ بڑھتے، وہ کبھی فحش بات نہ کرتے ، بازار میں شور و غوغا نہ کرتے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے۔ وہ تو معاف اور درگزر کرنے والے تھے۔‘‘
یہ ایسی برائیاں ہیں کہ ﷲ کے پاک نبی ؐ میں ان کے پائے جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن چونکہ عام لوگوں کی اکثریت ان میں مبتلا ہے اس لیے بیان کرنے والے نے ان کی نفی وضاحت کے ساتھ کی۔

بدزبانی اور گالم گلوچ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ غصے پر قابو پانا سیکھا جائے۔ غصہ ایسی شے ہے جو انسان کے جسم اور دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے، اس سے ہر انسانی عضو کی کارکردگی( physiology)متاثر ہوتی ہے۔ دماغ کا سوچنے سمجھنے والے حصہ (cortex cerebral ) اپنا کام شروع بھی نہیں کرتا کہ غصے کا اظہار کرنے والا حصہ (amygdala ) عمل میں آ جاتا ہے۔ غصہ کھانے والے شخص کے پٹھے کھچ جاتے ہیں، اُس کی سانس تیز تیز چلنے لگتی ہے، دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر تیز ہو جاتے ہیں، کبھی وہ کانپنے بھی لگتا ہے۔ ان لمحات میں وہ توانائی سے پر ہوتا ہے اور کوئی قدم اٹھا سکتا ہے، وہ ایسا عمل بھی کر سکتا ہے جس پر اسے بعد میں خود نادم ہونا پڑے۔ اس موقع پر اگر اُس کی سوچ سمجھ غالب آ جائے تو وہ غصے پر قابو پا سکتا ہے ورنہ غصہ اپنا کام کر دکھاتا ہے ۔ جس شخص سے بے انصافی ہوئی ہو یا اُس کی حق تلفی کی گئی ہو ، اُسے جلد غصہ آتا ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں، غصہ کسی پیش آنے والے خطرے کا رد عمل ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے یہ خطرہ انسان کی اپنی ذات کو درپیش ہو یا کسی ایسے شخص کو جس سے وہ محبت کرتا ہو۔ یہ خطرہ حقیقی ہو سکتا ہے اور خیالی بھی۔ بھوک ، تکلیف اور بیماریاں بھی غصہ پیدا کرتی ہیں۔ اگرچہ عام طور پر غصے کا اظہار گالی گلوچ ، مارپیٹ اور قتل و غارت کی صورت میں ہوتا ہے لیکن کبھی غصہ کھانے والا خاموشی کا سہارا بھی لیتا ہے ۔ اس صورت میں اس کا رویہ تناؤ (tension)اور نفرت ظاہر کرتا ہے۔

غصے کے اثرات سے بچنے کے لیے غصے کا باعث بننے والی وجوہات کو دور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ چونکہ عام طور پر یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا اس لیے غصے کو کنٹرول کرنا ہی اہم ترین ذریعہ رہ جاتا ہے۔

نبی ص نے فرمایا ، ’’دوسرے کو پچھاڑنے والا بہادر نہیں ہوتا ، بہادر تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے ۔‘‘

ایک صحابیؓ نے آپؐ سے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپؐ نے فرمایا، ’’غصہ نہ کیا کرو! آپ ؐ نے یہ ارشاد کئی بار دہرایا‘






Shahir Bano