Please Share Your Feedback In This Section.....





چوتھے امام زین العابدین علیہ السلام







چوتھے امام زین العابدین علیہ السلام
چوتھے امام زین العابدین علیہ السلام









چوتھے امام زین العابدین ؑبعض اقوال کی بنا پر ۱۵ جمادی الاولیٰ یا ٥-شعبان المعظم یا٣۸ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ (۱) آپ کے والد ماجد حسین ابن علی ؑاور والدہ ماجدہ جناب شہر بانو بنت یزدجرد تھیں(۲) آپ کی کنیت ابو الحسن، ابوالقاسم، ابومحمد اور آپ کے مشہور ترین القاب زین العابدین سید العابدین، زین الصالحین اور سجاد ہیں۔ (۳) آپ کی شہادت بعض اقوال کی بنا پر ۱۲ محرم ۹۴ھ؁ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ (۴) اور بقیع کے قبرستان میں دفن ہوئے آپ ۵۷ سال زندہ رہے دو سال کے تھے جب آپ کے جد بزرگوار حضرت علی ؑشہید ہوئے۔ دس سال اپنے چچا امام حسن ؑکی امامت کے زمانے میں رہے ۶۱ھ؁ میں عاشور کے دن اپنے والد ماجد کی شہادت کے بعد ۲۲ سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے آپ کی امامت کی مدت ۳۵ سال تھی ۔ (۵)
امامت کی دلیلیں
امام علی ابن الحسین زین العابدین ؑ کی امامت پر ان عام دلیلوں کے علاوہ جو بارہ اماموں کی امامت کے سلسلہ میں بیان کی جا چکی ہیں کچھ مخصوص دلیلیں بھی موجود ہیں جو ان کے پدر بزرگوار کے ذریعہ بیان کی گئی ہیں۔ ابوبکر خضرمی نے امام جعفر صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: جس وقت امام حسین ؑعراق کے سفر پر جا رہے تھے اپنا وصیت نامہ اور کتابیں ام سلمہ کے پاس امانت رکھیں جب علی ابن الحسین ؑکربلا سے واپس آئے تو ام سلمہ نے وہ امانتیں آپ کے حوالہ کر دیں۔ (٦) فضیل ابن یسار نے امام محمد باقر ؑسے نقل کیا ہے جس وقت امام حسین ؑعراق کے سفر پر جانے والے تھے اپنی کتابیں، وصیتنامہ اور بعض دوسری چیزیں پیغمبر اسلامؐ کی زوجہ جناب ام سلمہ ؑکے سپرد کیں اور فرمایا جب میرا بیٹا آپ کے پاس آئے یہ امانتیں اس کے حوالہ کردینا امام حسین ؑکی شہادت کے بعد آپ کے فرزند امام زین العابدین ؑنے ام سلمہ کے پاس جاکر وہ امانتیں آپ سے حاصل کرلیں۔ (۷) ابو الجارود نے امام محمد باقر ؑسے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: کہ امام حسین ؑنے اپنی شہادت سے پہلے اپنی بیٹی فاطمہ کو بلوایا اور ایک کتاب جو لپٹی ہوئی تھی اور ایک وصیت جو ظاہر اور نمایاں تھی ان کے حوالہ کی اس وقت علی ابن الحسین ؑ سخت بیمار تھے فاطمہ نے بعد میں وہ کتاب اور وصیت علی ابن الحسین ؑکے حوالہ کردی خدا کی قسم وہ کتاب اب ہمارے پاس ہے۔ ابو الجارود نے عرض کیا :میری جان آپ پر فدا ہواس کتاب میں کیا لکھا ہے؟ آپ نے جواب دیا: جن چیزوں کی ایک انسان کو ضرورت ہوتی ہے۔ خدا کی قسم اس کتاب میں اسلام کے تمام احکام اور حدود درج ہیں یہاں تک ایک کھرونچ لگ جانے کا جرمانہ بھی لکھا ہے۔ (۸) عبد اللہ ابن عقبہ کا بیان ہے: میں حسین ابن علی ؑکے پاس تھا کہ علی ابن الحسین ؑوہاں تشریف لائے میں نے امام حسین ؑسے عرض کیا اگر خدا نخواستہ آپ کو موت آ جائے تو ہمارا امام کون ہوگا؟ آپ نے جواب دیا: میرا یہ بیٹا! یہ خود بھی امام ہے اور دوسرے ائمہ بھی اسی کی نسل سے ہوں گے۔ (۹) مسعودی نے اپنی کتاب اثبات الوصیہ میں لکھا ہے حسین ابن علی ؑنے کربلا میں امام زین العابدین ؑکو بلایا جو بیمار تھے اسم اعظم اور انبیاء کی میراث آپ کے حوالہ کی اور ان سے یہ بتایا کہ علوم، صحیفہ اور اسلحہ ام سلمہ کے سپرد کر کے آئے ہیں اور ان سے کہہ دیا ہے وہ سب کچھ تمہیں دیدیں۔ (١۰) سید مرتضی علیہ الرحمہ نے عیون المعجزات میں تحریر فرمایا ہے: روایت کرنے والوں نے روایت کی ہے کہ امام حسین ؑنے وصیت فرمائی ہے: اسم اعظم اور انبیا کی میراث آپ کے فرزند علی ابن الحسین ؑکے حوالہ کردیںاور فرمایا: وہ میرے بعد امام ہوں گے۔ (١١) محمد ابن مسلم کا بیان ہے میں نے امام جعفر صادقؑ سے سوال کیا کہ امام حسین ؑکی انگوٹھی کس کو ملی میں نے سنا ہے کہ کربلا میں آپ کی انگوٹھی کو آپ کے دست مبارک سے اتار لیا گیا ۔ آپ نے فرمایا: ایسا نہیںہے بلکہ امام حسین ؑنے اپنے فرزند علی بن الحسین ؑکو اپنا وصی بنایا اوراپنی انگوٹھی اور منصب امامت آپ کے حوالہ کیا جیسا کہ پیغمبر اسلامؐ نے یہی کام مولائے کائنات علی ابن ابی طالب ؑکے سلسلہ میں اور انہوں امام حسن ؑاور امام حسن ؑنے امام حسین ؑکے سلسلہ میںانجام دیا تھا علی ابن الحسین ؑکے بعد وہ انگوٹھی میرے والد کے پاس رہی اور اب میرے پاس موجود تھے میں ہر جمعہ کو وہ انگوٹھی پہن کر نماز پڑھتا ہوں۔ محمدابن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھا آپ نماز پڑھ رہے ہیں نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے اپنی انگلی میری طرف بڑھائی میں نے دیکھا کہ آپ کے دست مبارک میں انگوٹھی ہے جس پر ’’ لا الہ الا اللہ عدۃ للقاء اللہ‘‘ کی عبارت نقش ہے ۔ امام ؑنے فرمایا: یہ میرے جد امام حسین ؑکی انگوٹھی ہے۔ (١۲) کتاب کشف الغمہ کے مصنف نے علی ابن الحسین ؑکی امامت کو ثابت کرنے کے لئے چند دلیلیں اور ذکر کی ہیں: ۱۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ امام زین العابدین ؑاپنے والد کے بعد علم و عمل کے اعتبار سے اپنے زمانے کے تمام لوگوں میں سب سے افضل تھے اورعقلی طور پر افضل کے ہوتے ہوئے غیر افضل کو امام نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ ۲۔ عقل اور نقلی دلائل کے مطابق امام کاوجود ہر زمانے میں ضروری ہے اور زمین کسی وقت بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی۔ دوسری طرف اس زمانے میں جودوسرے افراد امامت کے دعویدار تھے ان کے پاس اپنی امامت کے لئے کوئی قابل قبول دلیل نہیں تھی اور ان کا دعوی صحیح نہیں تھا لہٰذا امام زین العابدین ؑکا امام ہونا ثابت ہے اس لئے کہ زمین بغیر امام کے قائم نہیں رہ سکتی۔
خود پیغمبر اسلام ؐنے امام علی ابن الحسین ؑکی امامت کی تصریح فرمائی ہے جیسے حدیث لوح جس کو جابر نے پیغمبر اسلامؑ سے نقل کیا ہے اور امام محمد باقر ؑنے اپنے والد اور انھوں نے اپنے جد انھوں نے فاطمہ بنت رسولؐ سے نقل کیا ہے کہ اس لوح میں ۱۲ اماموں کے نام درج ہیں جن میں امام سجاد ؑ کا نام بھی موجود ہیں۔ بعض احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیر المومنین حضرت علی ؑنے امام حسین ؑکی حیات ہی میں علی ابن الحسین ؑکی امامت کے بارے میں خبر دی تھی۔ اسی طرح امام حسین ؑنے اپنی شہادت سے پہلے اپنے فرزند علی کی امامت کے بارے میں وصیت فرمائی تھی اور آپ نے وصیت نامہ ام سلمہ کے حوالہ کر دیا تاکہ ان کی شہادت کے بعد اس کو علی ابن الحسین ؑ کے حوالہ کر دیں ام سلمہ سے اس وصیت کا مطالبہ آپ کے دعوائے امامت کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ (١٣) جابر ابن عبد اللہ انصاری نے عرض کیا: یا رسول اللہ علی ابن ابیطالب ؑکی نسل میں کون لوگ امام ہیں تو آپ نے فرمایا: حسن ؑو حسین ؑجنت کے جوانوں کے سید و سردار اور ان دونوں کے بعد سید العابدین ؑان کے بعد باقر محمد ابن علی ؑاے جابر تمہیں ان کا زمانہ نصیب ہوگا ان کو میرا سلام کہہ دینا ان کے بعد صادق جعفر ابن محمد ان کے بعد کاظم موسیٰ ابن جعفر ان کے بعد رضا علی ابن موسیٰ ان کے بعد تقی محمد ابن علی ان کے بعد نقی علی ابن محمد ان کے بعد ذکی حسن ابن علی ان کے بعد ان کے فرزند قائم بہ حق مہدی امت، امام ہوں گے جو ظلم و ستم سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔
اے جابر یہ میرے خلفا، اوصیائ، میری اولاد اور میری عترت ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی مخالفت میری مخالفت ہے جو ان سب کا، یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کرے اس نے میرا انکار کیا ان کے وجود کی برکت سے خدا نے زمین کو محفوظ رکھا ہے ورنہ وہ اپنے اوپر بسنے والوں کو نگل لیتی۔ (١۴) فضائل اور اخلاقی کمالات علی ابن الحسین ؑ اپنے زمانے کے سب سے زیادہ با عظمت اور صاحب شرافت انسان تھے۔ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: ایک منادی قیامت میں آواز دے گا زین العابدین (عبادت گذاروں کی زینت) کہاں ہیں اس وقت علی ابن الحسین ؑصفوں کے درمیان آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ (١٥) علی ابن الحسین ؑخلیفہ وقت عمر ابن عبد العزیز کے پاس سے اٹھ کر گئے تواس نے حاضرین سے پوچھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب شرف کون ہے لوگوں نے عرض کیا خود آپ سے سب سے زیادہ صاحب شرف ہیں اس نے کہا تم نے صحیح نہیں کہا لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب شرف وہ ہے جو ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے۔ (١٦)
ہشام ابن عبد الملک خلیفہ ہونے سے پہلے حج کے لئے گیا اور حجر الاسود کا بوسہ لینا چاہا لیکن مجمع کی کثرت کی وجہ سے وہاں تک نہیں پہونچ سکا۔ اسی وقت علی ابن الحسین زین العابدین ؑپہونچے حاجیوںنے آپ کے لئے راستہ چھوڑ دیا اور آپ نے حجر الاسود کا بوسہ لیا ہشام کے ہمراہ افراد نےاس سے پوچھا یہ کون ہے جس کے لئے لوگوں نے خود بخود راستہ بنادیا ۔ ہشام نے کہا میں ان کو نہیں پہچانتا۔ فرزدق نے ہشام کی بات سن کر کہا لیکن میں انھیں خوب پہچانتا ہوں وہ علی ابن الحسین زین العابدین ؑہیں اس کے بعد انھوں نے امام کی مدح میں بہترین اشعار نظم کئے۔ (١۷) ابوحازم سفیان ابن عیینیہ اور زہری کا بیان ہے کہ ہم نے تمام بنی ہاشم میں علی ابن الحسین سے زیادہ صاحب فضیلت اور ان سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا۔ (١۸)
عبادت اور شب زندہ داری
علی ابن ابیطالب ؑکے بعد علی ابن الحسین ؑسب سے زیادہ عبادت گذار تھے اس طرح آپ کا لقب زین العابدین پڑ گیا۔ امام جعفر صادقؑ نے آپ کے بارے میںفرمایا: جب نماز کا وقت آتا تھا تو آپ کے بدن میں لرزہ طاہری ہو جاتا تھا چہرہ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا اور خرمے کے نو روئیدہ پودے کی طرح کانپتے تھے۔ (١۹) امام محمد باقر ؑنے فرمایا: جس وقت میرے والد نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے اندر درخت کے اس تنے کی طرح استقامت ہوتی تھی جو اپنی جگہ سے بالکل حرکت نہیں کرتا۔ (۲۰)
ابوحمزہ ثمالی کا بیان ہے: میں نے علی ابن الحسین ؑکو دیکھا کہ نماز کی حالت میں عبا آپ کی دوش مبارک سے گر گئی لیکن آپ جب تک نماز سے فارغ نہیںہوئے اسے صحیح نہیں کیا ۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ میں کس کے سامنے کھڑا تھا کسی انسان کی نماز قبول نہیںہوتی مگر صرف اتنی جتنے میں اس کا دل خدا کی طرف متوجہ رہے ۔ (۲١) جس وقت آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا ،جسم مبارک میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا ، حالت متغیر ہو جاتی تھی۔ اور جب اس کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا تو آپ فرماتے تھے کہ میںایک عظیم بادشاہ کے سامنے حاضر ہونا چاہتا ہوں جس وقت آپ نماز میں مشغول ہوتے تھے ہر چیز کو نظر انداز کر دیتے تھے اور کوئی آواز نہیں سنتے تھے۔ (۲۲) امام سجاد ؑکے فرزند عبد اللہ فرماتے ہیں: میرے والد راتوں کو اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ تھک جاتے تھے اور بچوں کی طرح زمین پر کھسک کھسک کر بستر تک تشریف لے جاتے تھے۔ (۲٣) امام زین العابدین علی ابن الحسین ؑسے اگر بعض نوافل کسی وجہ سے جھوٹ جاتی تھی تو رات میں ان کی قضا بجا لاتے تھے اور اپنی اولاد سے فرماتے تھے اگر چہ نوافل واجب نہیں ہیں لیکن میں چاہتا ہوں جس چیز کی عادت پڑ جائے اسے انجام دیتے رہو میرے والد سفر و حضر کسی بھی حالت میں نماز شب ترک نہیں کرتے تھے۔ (۲۴)
ابوحمزہ ثمالی کے والد کا بیان ہے :میں نے علی ابن الحسین ؑکو کعبہ کے پاس دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیںآپ نے اپنے قیام کو اتنا طول دیا کہ تھک گئے اس طرح کہ کبھی ایک پیر پر زور دیکر کھڑے ہوتے تھے اور کبھی دوسرے پیر پر۔ میںنے سنا کہ آپ فرما رہے تھے: ’’یا سیدی! تعذبنی و حبک فی قلبی اما و عزتک لئن فعلت لتجمعن بینی و بین قوم طال ما عادیتہم فیک‘‘ ’’اے میرے سید و سردار تو مجھے عذاب دے گا جب کہ تیری محبت میرے دل میںہے کیا تو اس کے باوجود مجھے ان کے درمیان جہنم میں رکھے گا جنھیں میں صرف تیرے لئے دشمن رکھتا تھا؟۔ زہری کا بیان ہے کہ علی ابن الحسین ؑفرماتے تھے : اگر پوری دنیا کے لوگ مر جائیں اور میرے پاس قرآن ہو تو مجھے ہرگز ڈر نہ لگے گا اور جس وقت آپ ’’مالک یوم الدین‘‘ پر پہونچتے تھے تو اتنا زیادہ دہراتے تھے کہ لگتا تھا موت آنے والی ہے۔ (۲٥) امام محمد باقر ؑنے فرمایا: علی ابن ابی طالب ؑکی بیٹی فاطمہؐ نے علی ابن الحسین ؑکو دیکھا کہ عبادت کی کثرت سے تھک کر چور ہوگئے ہیں جابر ابن عبد اللہ انصاری کے پاس گئیں اور ان سے کہا : اے صحابی رسول ؐ ہمارا آپ پر حق ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی عبادت کی کثرت کی بنا پر موت کے قریب پہونچ جائے تو آپ اسے نصیحت کریں کہ وہ اپنی سلامتی کا خیال رکھے علی ابن الحسین ؑجو اپنے پدر پزرگوار کی تنہا یادگار ہیں ان کی پیشانی اور گھٹنوں پر گھٹے پڑ گئے ہیں آئیے ان سے بات کیجئے شاید اتنی زحمت اور تکلیف اٹھانے سے باز آجائیں۔ جابر امام زین العابدین ؑکی خدمت میں پہونچے دیکھا آپ محراب میں عبادت الہٰی میں مصروف ہیں۔ امام ؑ جابر کے احترام میں اٹھے ان کی مزاج پرسی کی اور انھیں اپنے برابر میں بٹھایا۔ جابر نے عرض کیا: فرزند رسولؐ آپ کو معلوم ہے کہ خدا نے جنت کو آپ اور آپ کے چاہنے والوں کے لئے خلق کیا ہے اور دوزخ کو آپ کے دشمنوں کے لئے پیدا کیا ہے لہٰذا عبادت کے لئے اپنے کو اتنی زیادہ زحمت کیوں دیتے ہیں۔ علی ابن الحسین ؑنے فرمایا: اے صحابیٔ رسولؐ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ میرے جد رسول خداؐ ’’قد غفر اللہ لہ ما تقدم من ذنبہ و ماتأخر‘‘ عبادت کی راہ میں کتنی سعی کرتے تھے ا آپ کی پنڈلیوں اور آپ کے قدموں پر ورم آجاتا تھا اور عبادت کے بارے میں ٹوکنے والوں سے فرماتے تھے: ’’افلا اکون عبداً شکوراً‘‘ کیا میں خدا کا شکر گذار بندہ نہ بنوں۔ جب جابر نے دیکھا کہ علی ابن الحسین ؑپر آپ کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے تو عرض کیا: اے فرزند رسولؐ اپنی جان کی سلامتی کا خیال رکھیں اس لئے کہ آپ ایسے گھرانے سے متعلق ہیں جن کے طفیل میں اہل زمین سے بلائیں دور ہوتی ہیں اور بارش ہوتی ہے۔ امام سجاد ؑنے فرمایا: اے جابر میں جب تک زندہ ہوں اپنے آباء و اجداد کی سنت سے دست بردار نہیں ہوں گا یہاں تک کہ ان سے ملحق ہو جاؤں۔ (۲٦) علی ابن الحسین ؑنے پیدل حج کیا اور مدینہ سے مکہ کا سفر ۲۰ دن میں طے کیا۔ (۲۷)
فقراء و مساکین کے ساتھ حسن سلوک
امام محمد باقر ؑنے فرمایا: میرے والد نے دو مرتبہ اپنے اموال کو دو حصوں پر تقسیم کر کے ایک حصہ فقراء میں تقسیم کردیا۔ (۲۸)
علی ا بن الحسین ؑروٹیوں اور کھانے سے بھرے ہوئے تھیلے لیجا کر فقراء و مساکین میں تقسیم کرتے تھے اور فرماتے تھے صدقہ غضب الٰہی کی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ (۲۹) عمرو ابن دینار کا بیان ہے: زید ابن اسامہ نے اپنی موت کے وقت گریہ کیا علی ابن الحسین ؑجو وہاں موجود تھے انھوں نے گریہ کا سبب دریافت کیا۔ انھوں نے عرض کیا: میرے اوپر پندرہ ہزار دینار کا قرض ہے اوراس کوادا کرنے سے قاصر ہوںمجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں مجھے موت آ جائے اور میرے اوپر قرض کا بوجھ رہ جائے۔ امام ؑنے فرمایا: تم پریشان نہ ہو تمہارا قرض میرے ذمہ ہے میں اسے ادا کردوں گا۔ (٣۰) عبد اللہ حالت احتضار میں تھے اور ان کے پاس ان کے قرض دار جمع تھے جو ان سے اپنے قرض کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ عبد اللہ نے کہا: میرے پاس کچھ نہیں ہے جو تمہیں دے سکوں لیکن اپنے دو چچا زاد بھائیوں علی ابن الحسین ؑاور عبد اللہ ابن جعفر میں سے کسی ایک کے لئے وصیت کرتا ہوں کہ وہ تم لوگوں کا قرض ادا کردیں تم جس کو چاہو منتخب کر لو قرضداروں نے عرض کیا کہ عبد اللہ ابن جعفر اگر چہ ثروتمند ہیں اور علی ابن الحسین ؑکے پاس مال و دولت نہیں ہے لیکن ہماری نظر میں وہ بہتر ہیں اور ہم انھیں پر راضی ہیں۔ جب یہ خبر امام علی ابن الحسین ؑتک پہونچی تو آپ نے فرمایا: میں غلہ تیار ہونے کے وقت تم لوگوں کا قرض ادا کردوں گا۔ قرضدار راضی ہوگئے جب کہ اس وقت آپ کے پاس غلہ نہیں تھا اتفاق سے فصل تیار ہونےکے وقت خداوند عالم نے آپ کے لئے یہ امکان فراہم کر دیا کہ آپ نے سب کا قرض ادا کردیا۔ (٣١) امام محمد باقر ؑنے فرمایا: میرے والد رات کی تاریکی میں درہم و دینار کی تھیلیوں اور کھانے سے بھرے ہوئے تھیلوں کو اپنی پیٹھ پر لاد کر فقراء و مساکین کے دروازوں پر دستک دے دے کر ان کے درمیان درہم و دینار اور کھانا تقسیم کرتے تھے جب کہ اپنے چہرے کو ڈکھے رہتے تھے تاکہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکے آپ کی شہادت کے بعد لوگوں کوعلم ہوا کہ وہ انجان شخص علی ابن الحسین ؑہی تھے۔ (٣۲) زہری کا بیان ہے: میں نے سردی کی ایک رات میں جب بارش ہو رہی تھی علی ابن الحسین ؑکو دیکھا آپ نے اپنی پیٹھ پر آٹا لاد رکھا تھا میں نے عرض کیا فرزند رسولؐ آپ کی پیٹھ پر کیا ہے تو آپ نے فرمایا: سفر کا ارادہ ہے اپنی زاد راہ ایک مطمئن جگہ منتقل کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ اجازت دیں میرا غلام آپ کے بوجھ کو اٹھا کر پہونچا دے گا آپ نے اجازت نہیںدی میںنے عرض کیا: اچھا اجازت دیں، میں خود ہی آپ کی مدد کردوں ۔ آپ نے فرمایا: مجھے خود یہ بوجھ اٹھا کر منزل تک پہونچانا چاہئے تمہیں خدا کا واسطہ ہمارا پیچھا چھوڑ دو اوراپنا کام کرو۔ میںنے چند روز کے بعد امام ؑکودیکھا کہ آپ ابھی سفر پر تشریف نہیں لے گئے ۔ میں نے عرض کیا: فرزند رسولؐ آپ ابھی تک سفر پر نہیں گئے۔ آپ نے فرمایا: اے زہری وہ سفر وہ نہیں تھا جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ آخرت کا سفر تھا میںاپنے کواس کے لئے تیار کر رہا ہوں موت کی تیاری دو طریقہ سے ہوتی ہے حرام سے پرہیز اور کارخیر میں مال خرچ کرنے سے۔ (٣٣)
جب یزید کی فوج نے مدینہ پر حملہ کیا تو امام علی ابن الحسین زین العابدین ؑنے چار سو گھرانوں کی کفالت کی اور یہ کفالت اس وقت تک جاری رہی جب تک مسلم ابن عقبہ کی فوجیں مدینہ چھوڑ کر چلی نہیں گئیں۔ (٣۴) آپ کی تواضع اورانکساری امام زین العابدین ؑاپنی سواری پر سوار ہو کر جا رہے تھے کہ آپ کا گذر اس طرف سے ہوا جہاں چند کوڑھی بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے ان لوگوں نے آپ کو کھانے کی دعوت دی ۔ آپ نے فرمایا: میں روزہ سے ہوں ورنہ تمہاری دعوت قبول کرلیتا ۔ جب آپ گھر پہونچے تو حکم دیا کہ ان لوگوں کے لئے بہترین کھانا تیار کیا جائے اس کے بعد ان لوگوں کو اپنے یہاں مہمان بلایا اور ان کے ساتھ میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ (٣٥)
عفو و احسان
امام زین العابدین ؑکے ایک صحابی نے روایت کی ہے کہ آپ کے ایک رشتہ دار نے آپ کے اصحاب کے سامنے آپ کو بہت برا بھلا کہا لیکن آپ نے اس کا کوئی جواب نہیںدیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اپنے اصحاب سے فرمایا: تم لوگوںنے اس کی باتیں سنیں اب میں اس کا جواب دینا چاہتا ہوں ۔ اگر چاہو تو میرے ساتھ آسکتے ہو اس صحابی کا بیان ہے کہ اصحاب آپ کے ساتھ اس شخص کے گھر کی طرف چلے راستہ میں میںنے سنا کہ آپ اس آیت کی تلاوت فرماتے جا رہے تھے ۔ ’’والکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و اللہ یحب المحسنین‘‘جب اس شخص کے گھر پہونچے وہ گھر سے اس انداز سے نکلا جیسے حملہ کرنے کے لئے تیار ہو اس لئے کہ وہ سمجھ رہا تھا علی ابن الحسین ؑ اس سے بدلہ لینے آئے ہیں۔ اس وقت امام ؑنے اس سے فرمایا: بھائی تم نے میرے بارے میں ایسی ایسی باتیں کہیں اگر تمہاری باتیں صحیح ہیں تو میں توبہ کرتا ہوں اور اگر جھوٹی اور غلط ہیں تو خدا تمہارے گناہ کو بخش دے وہ شخص اپنے کہے پر شرمندہ ہوگیا آپ کی پیشانی کا بوسہ لے کر عرض کیا میں نے جو کچھ کہا وہ آپ میں نہیں پایا جاتا بلکہ میں خود ہی اس کا زیادہ مستحق تھا۔ (٣٦) امام زین العابدین ؑکی کنیز آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے جا رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے لوٹا چھوٹ کر آپ کے سر پر گر گیا اور آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا۔ امام ؑنے سر اٹھا کر کنیز کی طرف دیکھا۔ کنیز نے عرض کیا : خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے: ’’والکاظمین الغیظ‘‘ امام ؑنے فرمایا: میں نے اپنا غصہ روک لیا کنیز نے عرض کیا: ’’والعافین عن الناس‘‘ امام ؑنے فرمایا: خدا تیرے گناہ معاف کر دے۔ کنیز نے عرض کیا: ’’واللہ یحب المحسنین‘‘۔ امام ؑنے فرمایا: میں نے تجھے آزادکیا تو جہاں چاہے جاسکتی ہے۔ (٣۷) امام سجاد ؑکے یہاں کچھ لوگ مہمان تھے اور آپ کا خادم مہمان کے لئے کباب لا رہا تھا اچانک لوہے کی سیخ ایک بچہ کے سر پر گر گئی غلام پریشان ہوگیا۔ امام ؑنے فرمایا: تونے عمداً ایسا نہیں کیا اور تو آزاد ہے۔ (٣۸)
ایک شخص نے گھر سے باہرکہیں آپ کوبرا بھلا کہا اور آپ کی توہین کی، امام کے ہمراہ موجود افراد نے چاہا اس شخص پر حملہ کریں لیکن امامؑ نے ان کومنع کر دیا۔ اس کے بعد اس شخص سے فرمایا: جو تم سے مخفی ہے وہ اس سے کہیںزیادہ ہے اگر تم ضرورتمند ہو تو میں مدد کرسکتا ہوں اس کے بعد آپ نے اس شخص کو ایک لباس عطا کیا اور حکم دیا کہ اس کو ایک ہزار درہم عطا کئے جائیں ۔ وہ شخص آپ کے اس حسن سلوک کو دیکھ کر اپنے عمل سے شرمندہ ہوگیا اور اس کے بعد جب کبھی آپ کو دیکھتاتھا تو کہتا تھا کہ میں گواہی دیتا ہوں آپ پیغمبر اسلامؐ کے فرزند ہیں۔ (٣۹) علی ابن الحسین ؑرات میں اپنے چچا زاد بھائی کے یہاں تشریف لے جاکر انجان طریقہ سے ان کی مدد کرتے تھے جب کہ وہ کہتے تھے خدا آپ پر رحم کرے کہ آپ میری مدد کرتے ہیں علی ابن الحسین ؑمیری مدد نہیں کرتے خدا میری طرف سے ان کو جزائے خیر نہ دے۔ آپ ان کی باتیں سن کر برداشت کرلیتے تھے لیکن کبھی اپنے کو ظاہر نہیں کرتے تھے آپ کی شہادت کے بعد جب ان کی مدد کا سلسلہ رک گیا توان کواحساس ہوا کہ وہ مدد کرنے والے علی ابن الحسینؑ ہی تھے لہٰذا ان کی قبر مطہر پر جاکر گریہ کیا کرتے تھے۔ (۴۰) امام زین العابدین ؑایک جگہ سے گذرے جہاں چند لوگ آپ کی غیبت کر رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا: اگر تم صحیح کہہ رہے ہو تو خدا ہمیں بخش دے اور اگر جھوٹ بول رہے ہو تو تمہیں معاف کردے۔ (۴١)
امام زین العابدین ؑکی حیات بابرکت
امام زین العابدین ؑکی حیات بابرکت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے : ۱۔ ولادت سے امامت تک ۲۔ امامت سے شہادت تک ۔ ولادت سے امامت تک : آپ دو سال تک اپنے دادا امیر المومنین ؑکے ساتھ رہے دس سال اپنے چچا امام حسن ؑکی امامت کا زمانہ دیکھا اور اپنے بچپنے اور جوانی میں اس دور کے تمام ناخوشگوار حالات کا مشاہدہ کیا۔ آپ نے دیکھا کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے آپ کے چچا امام حسن ؑکی حکومت کو ناحق غصب کرلیا اس کے علاوہ اور منبروں پر خطبوں میں ،نماز کے قنوت میں ان کے جد امیر المومنین ؑپر لعنت بھیجتا ہے۔ آپ کی عمر مبارک ۱۲ سال تھی کہ آپ کے چچا امام حسن ؑکو زہر دیدیا گیا اور ان کو اپنے جد کے پہلو میںدفن تک نہیں ہونے دیا گیا۔ اس کے بعد دس سال تک آپ نے اپنے والد بزرگوار امام حسین ؑکے ساتھ زندگی بسر کی اور نوجوانی اور جوانی کا دور اپنے والد کے ہمراہ گذارا اس مدت میں بھی آپ معاویہ کے ذریعہ حکومت غصب کرنے اور طرح طرح کے ظلم و ستم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ امام حسین ؑکے مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے عراق کے سفر میں آپ امام حسین ؑکے ہمراہ تھے اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً ۲۲ سال تھی عاشورکے دلخراش واقعہ میں موجود تھے اور اپنے والد، بھائیوں ،چچا اور ان کی اولاد، دوسرے اعزاء و اقربا اوراصحاب وانصار کی شہادت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا بیماری کی شدت کی وجہ سے خود میدان جنگ میں حاضر نہ ہوسکے جس سے آپ کی جان بچ گئی خدا کی مرضی تھی کہ زمین حجت خدا سے خالی نہ رہے
دورامامت
امام زین العابدین ؑ ۱۰ محرم ۶۱ھ؁ کو اپنے والد کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے اور ہر چیز سے پہلے آپ پر دو انتہائی اہم اور فی الفور ذمہ داریاں عائد ہوئیں۔
۱۔ پیغمبر اسلامؐ کے اہل بیت ؑکے باقیماندہ افراد اور دیگر شہداء کے گھر والوں کی حفاظت اور ان کو در پیش خطرات سے بچانا جو یزید کے ظالم و جابر جلاد صفت فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار تھے امام زین العابدین ؑنے اپنی پھوپھی زینب و ام کلثوم کے ساتھ اس اہم ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ ۲۔ دوسری اہم ذمہ داری امام حسین ؑکی ذات با برکت سے دنیا کو روشناس کرانا اور کربلا کی تحریک میں آپ کے مقصد کو آگے بڑھنااور یزید کے کارندوں کے جرائم اور ان کی سنگدلی ، کا پردہ بھی فاش کرنا تھا جو جنگی قوانین کے سراسر مخالف تھی یہ ایک انتہائی اہم کام تھا جو امام حسین ؑکے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے بہت ضروری تھا۔ اس لئے کہ یزید اور اس کے کارندے امام حسین ؑکے اس قیام اور کربلا کے اس خونی واقعہ کو حکومت کے خلاف فساد پھیلانے والوں کی بغاوت اورامن وامان کے خلاف ان کی سازش قراد دیکر ان کے خون کو حلال بنا کر پیش کرنا چاہتے تھے ان کا مقصد تھا کہ اس طرح وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈال کر لوگوں کی عام رائے اپنے حق میں کرلیں گے وہ چاہتے تھے کہ کربلا کے اس ہولناک واقعہ پر جو لوگوں کی نظروں سے دور ایک بیابان میں رونما ہوا ہے جتنی جلدی ہوسکے پردہ ڈال دیں اور اس کے بارے میں کسی کو صحیح اطلاعات نہ مل سکیں۔ اگر یزید اور اس کے کارندے اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جاتے تو امام حسین ؑاور ان کے اصحاب و انصار کے قیام کا مقصدہی فوت ہو جاتا۔ لہٰذا امام زین العابدین ؑ نے اپنا فریضہ سمجھا کہ کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر میں ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھائیں اور دشمنوںکے ظلم و ستم او ر ان کی سنگدلی کو بے نقاب کریں اوراپنے والد کا صحیح تعارف پیش کر کے لوگوں کو ان کے مقصد سے روشناس کرائیں۔ حضرت امام زین العابدین ؑنے جناب زینب و ام کلثوم کی مدد سے اس سفر میں بھی ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کیا کوفہ اور شام کے لوگوں کے سامنے خطبہ دیئے ابن زیاد اور یزید کے دربار میں تقریر کر کے ان کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا۔ امام سجاد ؑاور زینب و ام کلثوم کے خطبوں تقریروں اور باتوں کا اثر تھا کہ کوفہ کے لوگوں میں ہیجان پیدا ہوگیا۔وہاں کے عورت مرد سب اہل بیت ؑکی مظلومیت اور ان کے خلاف ہونے والے مظالم کو یاد کر کرکے روتے تھے سر و سینہ پیٹتے تھے اور امام حسین ؑکی نصرت میں اپنی کوتاہی پرشرمندگی اظہار کرتے تھے۔ شام میں بھی اسی طرح کے حالات تھے جس کی وجہ سے یزید کواہل بیت ؑسے معذرت کرنا پڑی وہ ان مظالم کا ذمہ دار ابن زیاد کو ٹھہرایا کرتا تھا اور آخر کا اہل بیت ؑکو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کردیا۔ یزید اور ابن زیاد کے ذریعہ اہل بیت ؑاور شہداء کے گھر والوں کی گرفتاری کا مقصد اگر چہ ان پر نفسیاتی دباؤ ڈالنا اور اپنے اقتدار کا اظہار کر کے بنی امیہ کے خلاف ہر طرح کی اٹھنے والی آواز کو دبانا تھا لیکن امام زین العابدین ؑاور زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے ذریعہ اس سفر میں ہونے والی تقاریر اور خطبوں نے اہل بیت ؑکی اسیری کی سازش کو ناکام بنا کر اس کا اثر الٹا کر دیا اور یہ اسیری خود اسیر کرنے والے کی رسوائی کا ذریعہ بن گئی۔ امام زین العابدین ؑمدینہ میں امام زین العابدین ؑ اہل بیت ؑکے باقیماندہ افراد اور شہداء کے گھر والوں کے ساتھ مدینہ واپس آئے اور امامت سے متعلق امانتیں ام سلمہ سے حاصل کر کے اپنے فرائض امامت کی انجام دہی میں مصروف ہو گئے ۔ آپ کا پہلا فرض اور ذمہ داری اہل بیت ؑاور شہدا کے گھر والوں کی حفاظت اور بے سرپرست افراد کی کفالت تھی۔ دوسری ذمہ داری عاشور کے دلخراش واقعہ اور اپنی اسیری کے دوران پیش آنے والے واقعات کی تبلیغ اور اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو واقف کرانا تھی آپ کے حالات میں لکھا ہے کہ ہر وقت اور ہر مناسب موقع پر تمام شہداء اور خصوصاً اپنے والد بزرگوار کو یاد کر کے گریہ فرماتے تھے اور لوگوں کے سامنے عاشور کے مصائب بیان فرماتے تھے۔ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: علی ابن الحسین ؑنے ۲۰ سال اور ایک دوسری روایت کے مطابق ۴۰ سال تک گریہ فرمایا: جب آپ کے پاس کھانا لایا جاتا تھا تو آپ گریہ فرماتے تھے ایک دن آپ کے ایک خادم نے عرض کیا میری جان آپ پر فدا ہو جائے مجھے ڈر لگتاہے کہ کہیں آپ روتے روتے اپنی جان نہ دے ڈالیں۔ امام ؑنے جواب میں فرمایا: میں اپنا غم و الم خداوند عالم کے سامنے پیش کرتا ہوں جو میں جانتا ہوں وہ تمہیں نہیں معلوم۔ جب میں اولاد فاطمہ میں سے کسی کی شہادت کو یاد کرتا ہوں تو بے اختیار آنسو میری آنکھوں سے رواں ہو جاتے ہیں۔ (۴۲)
جب آپ پانی پینا چاہتے تھے اتنا گریہ فرماتے تھے توکہ آپ کی آنکھوں کے آنسو پانی کے پیالہ میں بھر جاتے تھے اور جب آپ سے اس بے قراری کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا تو فرماتے تھے کہ میں کیسے گریہ نہ کروں جب کہ میرا باپ پیاسا مار ڈالا گیا اور جو پانی جنگل کے حیوانوں تک کے لئے مباح تھا ان کو نصیب نہ ہوا۔ (۴٣) امام زین العابدین ؑکی گریہ و زاری اور نوحہ و ماتم کا مقصد صرف عزاداری نہیں تھا بلکہ آپ کا یہ عمل بنی امیہ کے ظلم و ستم کے خلاف ایک طرح کا احتجاج اور ان کے سیاہ کارناموں کا پردہ فاش کرنا تھا۔ امام زین العابدین ؑکی تیسری ذمہ داری اسلامی حکومت کا قیام اور معاشرہ کواسلامی قوانین کے مطابق ڈھالنا تھی۔ حکومت کا قیام اور سماج کے امور کی دیکھ بھال امامت کی ایک اہم ذمہ داری ہے اور آپ کے اندر اس کی صلاحیت بھی تھی لیکن چونکہ اس کے لئے ماحول سازگار نہیں تھا اور لوگ آپ کی حمایت کے لئے تیار نہیںتھے لہٰذا آپ نے اس سلسلہ میں بظاہر کوئی علمی اقدام نہیں کیا۔ خاص طور پر واقعہ کربلا کے بعد گھٹن اور خوف کا جو ماحول پیدا ہوگیا تھا اس میں کسی طرح کے عملی اقدام کی گنجائش بھی باقی نہیں رہ گئی تھی اور اگر حکومت کے قیام کے لئے کوئی تحریک چلائی جاتی تو اس کو ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑتا۔ امام ؑکی چوتھی ذمہ داری اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ اور اسلامی تعلیمات کو رائج کرنا تھا اور اس کے لئے آپ بہترین صلاحیتوں کے مالک تھے لیکن حکومت کے غاصبوں کی گھناؤنی سازشوں کے نتیجہ میں مسلمان آپ کی تعلیمات سے مکمل فیض حاصل نہیں کرسکے ۔
بنی امیہ کی حکومت کے ذمہ دار ایک طرف علی ابن ابی طالب ؑپر جھوٹے الزامات لگاکر آپ پر لعنت کرتے تھے اور پیغمبر اسلامؐ کے اہل بیت ؑکے خلاف لوگوں کے ذہن خراب کرتے تھے اور دوسری طرف اہل بیت ؑکے حامیوں اور آپ کے شیعوں کی نقل و حرکت پر دقیق نظر رکھتے تھے اور اس سلسلہ میں انتہائی حساس تھے کہ کہیں وہ اہل بیت ؑکے گھرانہ میں آمد ورفت کر کے لوگوں کے سامنے ان کی احادیث نہ بیان کرنے لگیں یا ان کی مدح سرائی نہ کرنے لگیں اگر کوئی ایسا کرتا تھاتو اس کو مختلف قسم کی سزاؤں اور محرومیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایسے حالات میں کس کی ہمت تھی کہ امام زین العابدین ؑکی خدمت میں علم حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوتا اور کس طرح آپ اپنی تعلیمات لوگوں کے درمیان عام کرتے؟ لیکن ان تمام رکاوٹوں کے باوجود آپ نے ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھایا اور حتی الامکان اپنی تعلیمات سے لوگوں کو بہرہ مند فرمایا: اس سلسلہ میں مختلف موضوعات میں بہت سی احادیث موجود ہیں جن میں سب سے اہم رسالہ حقوق ہے۔
رسالہ حقوق
امام زین العابدین ؑنے اس مختصر لیکن مطالب سے پر رسالہ میں تمام حقداروں کے حقوق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ آپ نے اس سلسلہ میں صرف انسانوں کے حقوق ہی بیان نہیں کئے بلکہ ان کے افعال نماز، روزہ، صدقہ، حسن سلوک وغیرہ کو بھی صاحب حق سمجھ کر ان کے حقوق کی طرف اشارہ کیا ہے یہ ایک انتہائی اہم بے مثال اور بہترین مضامین پر مشتمل رسالہ ہے جس کی تفصیلات کے لئے خود اس کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

آپ کی دعائیں
امام زین العابدین ؑکی بہتر معرفت کے لئے ضروری ہے کہ آپ سے مروی دعاؤں کا مطالعہ کیا جائے دعا کو کوئی معمولی عمل یا صرف خداوند عالم سے انسان کی درخواست نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ آیات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا ایک طرح کی عبادت، بلکہ سب سے اہم عبادت ہے جو انسانی زندگی کے کمال اور اس کے خداوند عالم سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے ۔ دعا کی حالت میں انسان کی روح مادی دنیا سے پرواز کر کے اپنے خدا سے رابطہ برقرار رکھتی ہے اور اپنی کمزوری اور احتیاج کا اعتراف کر کے غنی مطلق کی بارگاہ میں پناہ لیتی ہے اور اس سے مدد مانگتی ہے اور یہ عبادت کے علاوہ اور کچھ نہیںہے یہی وجہ ہے کہ ۔ پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومین ؑبہت زیادہ مناجات کرتے تھے اور ہر حال میں خدا کی طرف متوجہ رہتے تھے اور ہمیشہ اسی سے مدد طلب کرتے تھے اس سلسلہ میں پیغمبر اسلامؐ علی ابن ابیطالب ؑاور علی ابن الحسین ؑزیادہ مشہور ہیں۔ دعا اور حدیث کی کتابیں ان تینوں بزرگوں کی دعاؤں سے بھری پڑی ہیں پیغمبر اسلامؐ سے مروی دعائیں ایک ضخیم کتاب میں جمع ہوئی ہیں جس کا نام ’’الصحیفۃ النبویہ‘‘ ہے۔ مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب ؑکی دعاؤں کے مجموعہ کا نام ’’الصحیفۃ العلویہ‘‘ ہے۔ اور علی ابن الحسین امام زین العابدین ؑکی دعاؤں کا مجموعہ ’’الصحیفۃ السجادیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے
صحیفہ سجادیہ
دعاؤں کا یہ مجموعہ اتنا اہم اور بیش قیمت تھا کہ اس کو زبور آل محمد کے نام سے یاد کیا گیا۔ ان دعاؤں کے مطالعہ سے توحید، خدا کی معرفت، صفات ثبوتیہ، صفات سلبیہ، قیامت، آخرت، خداوند عالم کی عبادت اور اس کے ساتھ راز و نیاز کرنے کے طریقے ،اس کے سامنے دست سوال دراز کرنے کے انداز، قرب پروردگار اور اس کی جانب سیر و سلوک تعلیمات، بہترین اخلاق، بری صفات سے پرہیز ،دنیا و آخرت میں انسان کی حقیقی ضرورتوں اور ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ رابطہ،
 حسن معاشرت اوران کے تئیں ذمہ داریوں کے بارے میں بہترین دروس ہیں۔ آپ کی دعائیں انتہائی با معنی اور حیرت انگیز ہیں کوئی عام انسان ایسی دعائیں ہزگز پیش نہیں کرسکتا اور اپنے پروردگار کے ساتھ اس طرح راز و نیاز نہیں کرسکتا۔ امید ہے کہ
 تمام مسلمان خصوصاً شیعیان اہل بیت ؑان دعاؤں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔ 






اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ