Please Share Your Feedback In This Section.....






خواتین کے حقوق




خواتین کے حقوق
خواتین کے حقوق










اسلام نے خواتین کو مکمل طور پر اپنا حقوق دیا ہے جیسے حق حیات،حق تعلیم وتعلم،حق مالکیت،حق آزادی، حق انتخاب، حق معاملہ وتجارت،حق تصرف،حق نفقہ ،حق ارث ومہریہ و…اسلام نے مردوں سے زیادہ خواتین کے حقوق کا انتظام کیا ہے ۔
عورتوں کے حقوق اورامام خمینی Rاسلامی جمہوری ایران کے قانون اساسی میں عورت کے حقوق کو یوں مشخص کیا گیا ہے:o عورتوں کے مادی اور معنوی حقوق کا احیاء اور ان کی شخصیت کو رشدونکھار پیدا کرنے کیلئے مناسب زمینہ فراہم کرنا۔o ماؤں کی حمایت ،خصوصاً حاملگی اور بچوں کی حضانت کے دوران ان کا خاص خیال رکھنا۔ اور بچوں کی سرپرستی کے حوالے سے مشکلات کا دفع کرنا۔o خاندان کی بقا کیلئے صالح عدالت گاہ کا انعقاد کرنا۔o بیواؤں اور عمر رسیدہ عورتوں اور بے سرہرستوں کیلئے انشورنس کا قیام۔o . …
امام خمینی(رح)کا امریکی خبر نگار کو انٹرویوامام خمینی(رح)امریکی لاس انجلس ٹائمزمفسر کو ١٣٥٧ش میں یوں انٹرویو دے رہے ہیں :س: عورتوں کے اجتماعی مسائل جیسے، یونیورسٹیز میں کام کرنا اورتعلیم حاصل کرنا آپکے نزدیک کیسا ہے؟آپ نے جواب دیا: خواتین ، اسلامی معاشرے میں آزاد ہیں ۔ اور یونیورسٹیز یا دوسرے سرکاری اداروں میں کام کرنے سے کبھی نہیں روکا جاسکتاہے ، جس چیز سے روکا جاسکتا ہے وہ اخلاقی مفاسد ہیں جو مرد اور عورت دونوں پر حرام ہے-1
متخصص عورت اور واجب کفائیاسلام نے نہ صرف عورتوں کو کام کرنے سے نہیں روکا بلکہ بعض مقام پر ان کی موجودگی کو واجب کفائی قراردیا ہے۔ جیسے ڈاکٹرنی اور جراح عورت کا ہسپتال میں ہونا ، اسی طرح استانی کا بچیوں کے سکول میں ہونا، خواتین کیلئے درزی عورت کا ہونا یا ایسے موارد جہاں خود عورتوں کے ساتھ لین دین ہو، وہاں خواتین کی فعلیت اور موجودگی کو اسلام واجب کفائی سمجھتا ہے۔
خواتین کے فرہنگی حقوقفرہنگ اسلام میں جیسے تعلیم وتربیت ، ہنر وغیرہ کے حصول میں بھی خواتین کو آزادی دی گئی ہے۔ خصوصاًتعلیم وتربیت کے میدان میں تو اسلام نے اسی صراحت کیساتھ عورتوں پر تعلیم واجب قرار دیا ہے جس طرح مردوں پر ۔ قال7: طلب العلم فریضة علی کل مسلم ومسلمة-2اسلام نے اس مسئلہ پر اس قدر زور دیا ہے کہ شوہربھی بیوی کو تعلیم وتعلم سے نہیں روک سکتا اگرچہ دوسرے موارد میں شوہر کی اجازت کے بغیر وہ گھر سے وہ گھر سے نہیں نکل سکتی۔ چناچہ فقہاء نے بھی فتوے دئے ہیں: یحرم علی الزوج منع الزوجة من الخروج للتعلم۔ -3 حرام ہے مرد پر کہ وہ بیوی کو علم سیکھنے کیلئے گھرسے باہر جانے نہ دے۔
خواتین کے سیاسی حقوقاسلام نے مرد وعورت دونوں کو ان کے جو مشترکہ سیاسی حقوق دلایا ہے ،ان میںسے کچھ حقوق یہ ہیں:حق بیعت، حق انتخاب، حق شراکت ، حق رائی دہی ، حقدفاع وغیرہ۔
حق بیعتاسلام نے چودہ سو سال پہلے خواتین کی سیاسی مسئولیت اور استقلال کا اعلان کیا ہے۔اور اجازت دی ہے کہ اپنی تقدیر بدلنے ،ملکی سالمیت کو معین کرنے ،رہبریت کا انتخاب کرنے کیلئے پیامبر اسلام (ص)کی بیعت کرے۔ اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ابتداے اسلام میں خواتین نے پیامبر اسلام (ص)کے ہاتھوں بیعت کی ہیں۔ چنانچہ قرآن فرمارہاہے : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ-4پیمبر اگرایمان لانے والی عورتین آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی۔ اور چوری نہیں کریں گی۔ زنا نہیں کریں گی۔ اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔ اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لے کر نہیں آئیں گی۔ اور کسی نیکی میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی۔ تو آپ ان سے بیعت کا معاملہ کر لیں اور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خد ابڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔یعنی پیامبر اسلام (ص) خدا کی طرف سے مأمور تھے کہ مردوں کیساتھ ساتھ عورتوں سے بھی بیعت لے۔
فاطمہ(س) محافظ ولایتوفات پیامبر گرامی7کے بعد خلافت علی (ع) کی بیعت لینے میں فاطمہ کی دن رات کوشش اور مہاجرین و انصار کے دروازوں پر حسنین (ع) کے ہاتھوں کوتھام کر جانا آپ کی سیاسی فعالیت کی عکاسی کرتا ہے۔واقعہ فدک میں آپ کی حق طلبی اور مقام ولایت کی حمایت میں مصیبتیں برداشت کرنا ، یہاں تک کہ آپ کا محسن شہید ہوا اور آپ مجروح ہوگئیں ۔ اور شھادت پاگئیں۔ یہ سب آپ کی سیاسی فعالیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اپنی سیاسی بصیرت اور علم وحکمت کے ذریعے ایک مفصّل خطبہ مسجد نبوی میں ابوبکر و عمر اور دیگر مہاجرین و انصار کی موجودگی میں دینا کہ جس سے مسجد کی در ودیوار بھی ہلنے لگی۔ آپ کی اور دیگر خواتین کی معاشرے میں سیاسی فعالیت کی نشاندہی کرتی ہے۔اگر مختصر جملے میں کہنا چاہے تو یوں کہہ سکتے ہیں : خلافت و حکومت اسلامی کے مسئلے کو لوگوں کے سامنے ترسیم کرنے والی آپ ہی کی ذات مبارک تھی۔اسی طرح جنگ صفین ، نہروان اور جمل میں بھی امام حسن اور علیH کی شکل میں آپ کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔کربلا میں سید شھداء کی شکل میں آپ ہی کا فاتحانہ کردار نظر آتا ہے۔ کوفہ و شام میں دیکھ لو حضرت زینب کی صورت میں آپ کا حکیمانہ نقش نظرآتا ہے۔ حتی خود پیامبر اسلام (ص)کی سیرت میں آپ کا کردار متجلّی ہورہا ہے، پیامبر اسلام (ص) فرماتے ہیں :فاطمة امّ ابیھا۔ ماں سے مراد جنم دینے والی نہیں بلکہ خاندان رسالت کی جڑ،اساس اور محور اصلی فاطمہ(س) کی ذات ہے۔ جب کفار قریش پیامبر اسلام (ص) کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دیتے تھے تو آپ کی مغموم اور اداس دل کی تسلی کی خاطر خدا وند متعال نے فاطمہ(س) کی شکل میں کوثر عطا کیا اور آپ ہی کے ذریعے پیامبر اسلام (ص) کی اولاد تا قیامت باقی رہ گئی۔حدیث کساء میں تو آپ کی محوریت پر چار چاند لگا دیا ہے۔ جب سوال ہو ا : یہ پنجتن کون لوگ ہیں؟ تو جواب آیا : ھم فا طمة وابوھا وبعلھا وبنوھا۔اسی طرح فاطمہ زہرا (س) کی چاہنے والی خواتین نے بھی آپ کی پیروی کرتے ہوئے ولایت فقیہ کی حکومت کے قیام میں اور اہلبیت اطہار کے فرامین کو معاشرے میں عام کرنے کیلئے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنہوں نے اپنے عزیزوں اور جگر پاروں کو میدان جنگ میں بہیجنے سے کبھی گریز نہیں کیا، کیونکہ انہوں نے درسگاہ حضرتزہرا (س)سے سبق حاصل کی تھی ۔ اور جس نے بھی آپ کی پیروی کی کامیاب ہوا۔انقلاب اسلامی ایران میں دیکھ، خمینی بت شکن کی شکل میں آپ کا کردار نظر آتا ہے کیونکہ جس نے سب سے پہلے ولایت اور رہبری کی حمایت کی وہ فاطمہ Iکی ذات تھی۔ اور خمینی(رح)کا بھی یہی نعرہ تھا کہ ولایت فقیہ اور اہل بیت کی حکومت قائم ہونا چاہئے اور بفضل الہی قائم ہوکر ہی رہی۔ خدا تعالی اس انقلاب کو انقلاب امام زمان(عج) سے ملا دے اور ہم سب کو ان کے اعوان و انصار میں شمار فرما اور انہی کی رکاب میں شہادت نصیب فرما ۔آمین۔
اما م خمینی(رح)اور خواتین کے سیاسی مسائلامام خمینی(رح)فرماتے ہیں: خواتین کو بھی چاہئے کہ ملک کی بنیادی مقدرات اور اپنی تقدیر معین کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلامی قوانین مرد وعورت دونوں کے مفاد میں ہیں، اور ہم چاہتے ہیں کہ خواتین بھی انسانیت کے عظیم مقام پر فائزہوں۔ آپ فرماتے ہیں خواتین ہمارے انقلاب اور نہضت کی رہنما ہیں اور ہمان کے پیچھے پیچھے ہیں۔ اور میں خواتین کی رہبری کو قبول کرتا ہوں-5مقام معظم رہبری حضرت آیةاللہ خامنہ ای(مدظلہ) فرماتے ہیں : ایرانی قوم اور انقلاب اسلامی کی آزادی وکامیابی میں خواتین کا نمایاںکردار ہے۔ اگر خواتین شریک نہ ہوتیں تو انقلاب اسلامی اس قدر کامیاب نہ ہوتا، یا اصلاً کامیاب نہ ہوتا یا بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا-6۔
خواتین کے اقتصادی حقوقاسلام نے جس قدر مردوں کو اپنی دولت اور ثروت میں حق تصرف اور مالک ہونے کی مکمل اجازت دی ہے اسی طرح خواتین کو بھی اجازت دی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں صراحتاً فرمایا ہے:للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن-7 شوہر یا کسی اورکوحق تصرف نہیں اور نہ یہ لوگ عورت کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک سکتے ہیں: لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ-8 کیونکہ ملکیت ایک مستقل حق ہے اور ہرمرد وعورت اپنے اموال پر خودحق تصرف رکھتا ہے۔ عورت بھی مشروع اور جائزتجارت اور کسب وکار میں مردوں کی طرح آزاد ہے۔ حتی بعض شعبوں میں جو ان کی استعداد کیلئے مناسب ہیں۔ اور بہتر شرائط موجود ہیں وہاں ان کا ہونا زیادہ بہتر ہے۔
ملک سازی میں عورتوں کا کردارامام خمینی Rفرماتے ہیں کہ ملک سازی میں ہماری خواتین کا بڑا کردار رہا ہے۔ جب اش ایران کو نکال دیا گیا تو اپنی تقریر میں فرمایا: اے ایران کے خواتین و حضرات!آؤ ہم سب مل کر اس کھنڈر میں تبدیل شدہ ملک کو دوبارہ تعمیر کرتے ہیں۔ جس طرح آپ خواتین ،انقلاب اسلامی میں حصہ دار تہیں اسی طرح اس خرابہ کی تعمیر میں بھی حصہ دار بنیں اور مردوں کا ہاتھ بٹائیں-9
حق ارثخواتین کی اقتصادی اور مالی حقوق میں سے ایک ، حق ارث ہے کہ ظہور اسلام سےقبل دینا کے اکثر ممالک میں عورت اس حق سے محروم تھی ۔ حتی عرب جاہلیت میں تو انہیں ارث کے طورپر آپس میں تقسیم کیاکرتے تھے، اسلام نے آکر دور جاہلیت کی ان غلط رسومات کو توڑ کر انہیں باقاعدہ وارث متعارف کرایا ۔ چنانچہ قرآن مجید کا ارشاد ہے: لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا 10اور جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا ایک حصہ اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں تھوڑا ہو یا بہت ، عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، یہ حصہ ایک طے شدہ امر ہے۔لیکن بعض اسلام دشمن عناصر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو مرد کی نسبت کم ارث دیتا ہے۔ اور یہ اسلام ہے جس نے مرد اور عورتوں کے حقوق میں مساوات اور برابری کو نظراندازکیا ہے۔ تو ہم جواب دینگے کہ انہوں نے صرف ایک زاویہ سے نگاہ کی ہے۔ اگردوسرے نکتہ نگاہ سے بھی دیکھتے تو وہ خود سمجھ جاتے کہ خواتین کا جو حصہ نسبتاً مردوں سے کم ہے پھر بھی زیادہ ہے۔! کس طرح؟! کیونکہ مرد کو جو ارث ملتا ہے وہ خود بیوی بچوں پر خرچ کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ لیکن جو ارث عورت کو ملتا ہے وہ خرچ کرنے کیلئے نہیں بلکہ جمع کرنے کیلئے ہے ۔ کیونکہ اسلام نے ان کا نان و نفقہ مردوں کے ذمہ لگا دیا ہے۔دوسرے الفاظ میں عورتوں کو جو ارث ملتا ہے وہ ان کا جیب خرچ ہے ۔ اب اعتراض کرنے والے خود بتائیں کہ کس کا حق اور حصہ زیادہ ہے۔
————1 ۔ صحیفہ نور،ج٤،ص٣٩۔2 ۔ محجة البیضائ،ج١،ص١٨۔3 ۔ جواہر الکلام،کتاب النکاح۔4 ۔ الممتحنہ ۱۲۔5 ۔ صحیفہ 

نور،ج٦،ص٨٥۔6 ۔ روزنامہ قدس، ٢٧ شھریور ١٣٧١ش۔7 ۔ نساء ۳۱۔8 ۔ بقرہ ۲۸۶۔9 ۔ صحیفہ نور،ج ١١،٢٥٤۔10 ۔ نساء ۷۔




شہر  بانو