سلسلہ بحث مہدویت انتظار امام عصر عج کی جزا     قسط 37



سلسلہ بحث مہدویت انتظار امام عصر عج کی جزا     قسط 37












🌻انتظار امام عصر عج🌻

👈گذشتہ سے پیوستہ:
3⃣ظہور کا انتظار کرنے والوں کا یہ فریضہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ تعاون اور نصرت و مدد کو اپنے منصوبوں میں پیش نظر رکھیں اور اس معاشرہ کے افراد تنگ نظری اور خود پرستی سے پرہیز کرتے ہوئے معاشرہ میں غریب اورحاجت مند لوگوں پر دھیان دیں اور ان کے معاملے میں لاپرواہی نہ کریں۔
📚 شیعوں کی ایک جماعت نے حضرت محمد باقر عليہ السلام سے نصیحت کی درخواست کی تو امام عليہ السلام نے فرمایا:
🌼''تم میں سے صاحب حیثیت لوگ غریبوں کی مدد کریں اور مالدار افراد حاجت مندوں کے ساتھ محبت و مہربانی سے پیش آئیں اور تم میں سے ہر شخص دوسرے کے لئے نیک نیتی سے کام لے''۔
بحار الانوار،ج٥٢،باب٢٢،ح٥،ص١٢٣.
🔵یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس تعاون اور مدد کا دائرہ فقط ان کے اپنے علاقے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ انتظار کرنے والوں کی خیر اور احسان دور دراز کے علاقوں میں بھی پہنچتا ہے کیونکہ انتظار کے پرچم تلے کسی طرح کی جدائی اور غیریت و دوئیت کا احساس نہیں ہوتا۔
4⃣ انتظار کرنے والے معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں مہدوی رنگ و بو پیدا کریں، ان کے نام اور ان کی یاد کا پرچم ہر جگہ لہرائیں اور امام عليہ السلام کے کلام اور کردار کو اپنی گفتگو اور عمل کے ذریعہ عام کریں اور اس راہ میں بھرپورکوشش کریں کہ بے شک آئمہ معصومین کا لُطف ِخاص ان کے شامل حال ہوگا۔
📚 امام محمد باقر عليہ السلام کے صحابی عبد الحمید واسطی آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:
🌹''ہم نے امام عليہ السلام کے ظہور کے انتظار میں اپنی پوری زندگی وقف کردی کہ جس کی وجہ سے ہمیں بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
امام عليہ السلام نے جواب میں فرمایا:
👈اے عبد الحمید! کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ خداوندعالم نے اس بندہ کے لئے جس نے خود کو خداوندعالم کے لئے وقف کردیا ہے مشکلات سے نجات کے لئے کوئی راستہ نہیں قرار دیا ہے؟
خدا کی قسم، اس نے ایسے لوگوں کی مشکلات کے حل کے لئے راستہ مقر ر کیا ہے۔ خداوندعالم رحمت کرے اس شخص پر جو ہمارے امرِ (ولایت) کو زندہ رکھے''۔
بحارالانوار،ج٥٢،باب٢٢،ح١٦،ص١٢٦.
🌳آخری نکتہ یہ ہے انتظار کرنے والے معاشرے کو کوشش کرنا چاہئے کہ تمام اجتماعی پہلوؤں میں دوسرے معاشروں کے لئے نمونہ قرار پائے اور منجی عالم بشریت کے ظہور کیلئے تمام لازمی راستوں کو ہموار کرے۔
✍ انتظار کے اثرات:
بعض لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ عالمی مصلح (اصلاح کرنے والے) کا انتظار انسان پرجمود اور لا تعلقی کی حالت طاری کر دیتا ہے اور جو لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ ایک عالمی مصلح آئے گا اور ظلم و جور اور برائیوں کا خاتمہ کردے گا وہ برائیوں اور پستیوں کے مقابل ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں، خود کوئی قدم نہیں اٹھاتے اور ظلم و ستم کو خاموشی سے دیکھتے رہیں!!
🔴لیکن یہ نظریہ ایک سطحی نظریہ ہے اور اس میں دقت نظر سے کام نہیں لیا گیا۔ کیونکہ امام مہدی عليہ السلام کے انتظار کے سلسلہ میں بیان ہونے والے مطالب کے پیش نظر واضح ہے کہ انتظار کا مسئلہ اپنی بے مثال خصوصیات اور امام مہدی عليہ السلام کی بے مثال عظمت کے پیش نظر نہ صرف انسان میں جمود اور بے حسی پیدا نہیں کرتا بلکہ حرکت ،جوش و جذبہ اور ارتقاء کا بہترین سبب ہے۔
🔵انتظار ، منتظر میں ایک مبارک اور با مقصد جذبہ پیدا کرتا ہے اور منتظر جتنا بھی انتظار کی حقیقت کے نزدیک ہوتا جاتا ہے مقصد کی طرف اس کی رفتار بھی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے انتظار کے زیر سایہ انسان خود پرستی سے آزاد ہوکرخود کو اسلامی معاشرے کا ایک حصہ تصور کرتا ہے، لہٰذا معاشرے کی اصلاح کے لئے حتی الامکان کوشش کرتا ہے اور جب ایک معاشرے کے افراد یہ جذبہ رکھتے ہوں تو پھر اس معاشرے میں فضائل اور اقدار رائج ہونے لگتے ہیں اور معاشرے کے سب لوگ نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے لگتے ہیں اور ایسے ماحول میں کہ جو اصلاح، کمال، امید اور نشاط بخش فضا اور تعاون وہمدردی کا ماحول ہے،دینی عقائد اور مہدوی نظریہ معاشرے کے افراد میں پیدا ہوتا ہے اور اس انتظار کی برکت سے منتظرین فساد اور برائیوں کے دلدل میں نہیں پھنستے بلکہ اپنے دینی اور نظر یاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
🌸وہ انتظار کے زمانہ میں پیش آنے والی مشکلات میں صبر و استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور خداوندعالم کا وعدہ پورا ہونے کی امید میں ہر مصیبت اور پریشانی کو برداشت کرلیتے ہیں اور لمحہ بھر سستی اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتے۔
🍀واقعاً کونسا ایسا مکتب اور مذہب ہوگا جس میں اس کے ماننے والوں کے لئے ایک روشن مستقبل پیش کیا گیا ہو؟ ایسا راستہ جو الٰہی جذبہ و نصب العین کے تحت طے کیا جائے، جس کے نتیجہ میں اجر عظیم حاصل ہو۔
👈(جاری ہے......)🌷